رتبہ معلم | معاشرے میں استاد کا مقام | محمد صدیق (لورالائی)

قلم کار

 محمد صدیق

 یونیورسٹی آف لورالائی

 "ماں باپ تمہیں اس دنیا میں لانے کا سبب بنتے ہیں لیکن اس دنیامیں جینے کا سلیقہ تمہارا استاد سکھاتا ہے۔" 

  سکندراعظم

 

 معلم معاشرے میں اس عظیم شخصیت کو کہا جاتا ہے ۔ جو معاشرے کی بنیادوں، قوم کی جڑوں، ملکوں اور ریاستوں کی سرحدوں، اور نظام عالم کی بقاء میں بنیادی اور مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ اور انہیں گھن لگے سے بچاتا ہے۔ ایک استاد محض ایک شخص یا ذات کا نام نہیں ہوتا بلکہ پورا ایک جہاں ہوتا ہے۔ جس سے لاکھوں کروڑوں لوگ متعلق ہوتے ہیں۔ استاد کے لگن، محنت، شوق، امانت، دیانت اور نیک نیتی کا اثر صرف اس کے ذات تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ ان صفات حسنہ کا دائرہ کروڑوں لوگوں تک وسیع ہوتا ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ معلم تعلیم وتربیت کا بنیادی ستون ہے جس کے بغیر تعلیم وتربیت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ گویا کہ معلم ہی معاشرے کا وہ بنیادی مرکز ومحور ہے۔ جس کے گرد تمام تعلیمی سرگرمیاں گردش کرتی ہیں۔ اس بات کو آگے بڑھاتے ہیں معلم ہی وہ ہستی ہے جو چوٹوں اور بڑوں کو راہ راست پر گامزن کرتی ہے معلم ہی جاہل کو عالم اور بے ادب کو باادب بناتا ہے ۔معلم ہی کی بدولت خوشحال معاشرہ تشکیل پاتا ہے ۔اور اسلامی معاشرے کی فضا کو ہموار کرنے میں ایک معلم ہی کلیدی کردار ادا کرتا ہے ۔حضور کا ارشاد پاک ہے۔ 

 "مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے" 

 آپ کے منصب رسالت کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری تعلیم وتعلم کی بھی تھی ۔ آپ نے دیگر زمہ داریوں کی طرح تعلیم وتعلم کی اس اہم ذمہ داری کو بھی باحسن انداز میں نبھایا اور آپ نے جہالت وظلمت میں ڈوبے ہوۓ صحرانشینوں کوتعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے قیامت تک آنے والی انسانیت کے لئے آئیڈیل اور ہدایت کا ذریعہ بنا۔

  استاد طلبہ کی شخصیت سازی اور کردار سازی میں اہم کردارادا کرتا ہے استاد کی اہمیت اور اس کے مقام ومرتبہ کی ایک خاص وجہ بھی ہے کہ وہ ہماری شخصیت سازی اور کردار سازی میں معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔ استاد ہر ایک طالب علم کو ویسے سنوار نے کی صلاحیت رکھتا ہے جیسے ایک سنار دھات کے نکرے کو سنوارنے پر قادر ہوتا ہے۔ استاد بادشاہ نہیں ہوتا لیکن بادشاہ بنانے کی صلاحیت ضرور رکھتا ہے۔ 

حضرت علی کا فرمان ہے

" جس نے مجھے ایک حرف سکھایا میں اس کا غلام ہوں  چاہے وہ مجھے بیچے ، آزادکرے یا غلام بنائے رکھے "


 مشہور زمانہ ماہر تعلیم پستالوزی کے متعلق مشہور ہے کہ  "جب وہ کمرہ جماعت میں داخل ہوتا تو چھوٹے بچوں کو پہلے سلام کرتا کسی نے وجہ پوچھی جواب دیا مجھے ۔علوم نہیں کہ ان بچوں میں کون بڑا فلسفی ، کون بڑا آدمی یا معلم انسانیت بیٹا ہوا ہے ۔ میں شاہد اس وقت ان کی تعظیم کیلئے زندہ نہ رہوں گا۔"

  

   بقول افلاطوان:

    "جولوگ سب سے زیادہ استاد کومحترم مانتے ہیں وہی حقیقی تہذ یب یافتہ ہیں ۔"

    درج بالا ارشادات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا تا ہے کہ استاد کی عزت تعظیم ہم پر کتنا لازم ہے ۔استاد کے جوتے سیدھی کرنے میں ہی ایک طالب علم کی کامیابی و کامرانی کا راز پوشیدہ ہے۔ استاد ہی جو طالب علم کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کرعلم کے اجالے میں لاتا ہے اگر ہم ماضی کے اوراق پلٹیں تو ہمیں اکثر ایسے استاد ملتے ہیں جنہوں نے ہماری شخصیت کے وہ پہلو نکھارے ہیں جن سے ہم خودبھی نا آشنا تھے۔ استاد ہی وہ زینہ ہے جس پر چڑھ کر ایک طالب علم ترقی کی بلندیوں کو چھو لیتا ہے۔ چنانچہ دور حاضر میں علم کی برکات اٹھ جانے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ آج کل کے طلباء نے اپنے معلم کی عزت تعظیم کرنا چھوڑ دیا ہے ۔طلباء نے استاد کو فقط ایک عہدہ دار یا ہنرمند سمجھ لیا ہے ۔استاد کی عزت صرف گیٹ کے اندر تک محدود ہے حصول علم میں طلباء نے مطلوب عزت اور وقار کو ترک کردیا ہے۔ استاد کی جوتی سیدھی کرنے کے بجاۓ ان سے آگے چلنے میں کوی حرج محسوں نہیں کی جاتی۔ ہمارے معاشرے میں تو استاد کا احترام اسکے گریڈ اور عہدے سے منسلک ہے؟


 اس کے برعکس آج اگر اہل مغرب ہم سے اس قدر آگے نکل گئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ استاد کا اصل مقام و مرتبہ ، عزت و تکریم جانتے ہیں ۔امریکہ میں استاد کو وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے۔اگر پبلک ٹرانسپورٹ میں کوئی سیٹ خالی نہ ہوتو پھر بھی لوگ قوم کے استاد کیلئے سیٹ خالی کر دیتے ہیں۔ فرانس میں اگر استادعدالت میں حاضر ہوتو اسے کرسی پر بیٹھایا جا تا ہے وہاں عدالت میں استاد کی گواہی کو پادری سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے ۔امریکہ میں رواج ہے کہ جب کوئی طالب علم کامیابی حاصل کرتا ہے تو وہ اپنے استاد کو سلوٹ کرتا ہے۔ اس طرح استاد کی عزت و احترام کے متعلق اشفاق احمد کے ساتھ روم ( اٹلی ) میں پیش آنے والے واقعہ سے بھی بخوبی واقف ہے چنانچہ دور جدید میں ہم استاد کے اقوال اور ہدایات پر عمل پیرا ہوکر سرخرو ہوسکتے ہیں اوران کے جوتے سیدھی کرنے سے کا میابی و کامرانی ملتی ہے۔ 

 

میرے استاد میرے معلم آپ کی تعریف و شکریہ کے لئے میرے پاس ادا کرنے کیلئے الفاظ نہیں ہے ۔جس شان کے آپ مستحق ہیں۔ آپ نے علم کی روشنی سے ہماری زندگی کو منور فرمایا خدا وند تعالی آپ سے راضی ہو لمبی عمر اور کامل صحت آپ کو نصیب ہو۔

 میں تو اپنے ہر مخلص استاد کے لیے یہ دعا کرتا ہوں کہ ! اے اللہ ہمارے اساتذہ کوخوش وخرم رکھے۔ ان کو زندگی میں ڈھیر ساری خوشیاں عطا فرمائے اور ہمیں ان کا فرمانبردار بناۓ۔

  آمین 

Post a Comment

6 Comments

  1. بے شک استاد کا مقام یا استاد قوم کا محسن ہے اورمعمار بھی ۔استاد عظیم ہستی ہے
    استاد قوم کا محسن بھی ہوتا ہے اور معمار بھی ۔استاد وہ عظیم ہستی ہے جس کا مقام بہت بلند ہے استاد نونہالان وطن کی تعلیم کا فریضہ سرانجام دیتا ہے ۔ استاد کی وجہ سے ایک باشعور اور تعلیم یافتہ معاشرہ وجود میں آتا ہے۔

    ReplyDelete
  2. Thanks bro for supporting

    ReplyDelete
  3. ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کا
    وہی شاگرد ہیں جو خدمت استاد کرتے ہیں۔
    آپ جیسے ہونہار طلباء مستقبل کے روشن چراغ ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ کو مزید کامیابیاں عطا فرمائے

    ReplyDelete